یورپی یونین کی ایران پر ممکنہ فوجی حملے کی مخالفت
14 نومبر 2011جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے ایران مخالف فوجی کارروائی کی حمایت سے انکار کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فوجی کارروائی سے متعلق کسی بھی طرح کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے ایسے کسی بھی مذاکراتی عمل کو بے معنی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
برطانیہ نے اس حوالے سے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ تمام آپشنز پر غور کرنا ضروری ہے۔ ایران پر فوجی کارروائی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کا کہنا تھا کہ فی الحال وہ عسکری کارروائی کے بارے میں غور نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا ملک کسی بھی فوجی حملے کا مطالبہ نہیں کر رہا اور نہ ہی اس کی وکالت کر رہا ہے۔ ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ آنے والے چند ماہ میں وہ اس مسئلے کے پر امن حل کے لیے مذاکرات کے ذریعے ایران پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں تاہم انہوں نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے سے بھی دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے جوہری توانائی سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے آئی اے ای اے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے قابل بھروسہ معلومات ملی ہیں۔ اس انکشاف کے بعد ایران اور اس کے دیرینہ حریفوں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان مزید تناؤ پیدا ہو چکا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ الان ژوپے نے بھی عالمی برادری کی جانب سے ایران پر سخت پابندیوں کے لیے کہا تھا۔
سفارتکاروں کے مطابق یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ایک مشترکہ بیان کے مسودے میں بھی ایران کو عالمی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ سویڈش وزیر خارجہ کارل بلٹ نے بھی اس مسئلے کے حل کے لیے فوجی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے سفارتی ذرائع سے اسے حل کرنے پر زور دیا ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: شادی خان سیف