برصغیر کا خطہ صدیوں کی غلامی کے تجربے سے گزر چُکا ہے۔ مہذب الفاظ میں اسے نوآبادیت کا دور کہا جاتا ہے، جو مختلف قرنوں میں اپنی شکل تبدیل کرتا رہا۔ تاہم اس نظام کو چلاتے رہنے کے لیے جس چکی کی ضرورت ہوتی ہے اُس میں صرف اور صرف انسان پستے ہیں۔ تقریبا ڈھائی سو سال برطانوی سامراج کے زیردست رہنے والی ان قوموں کو جب 1947ء میں نام نہاد آزادی ملی تو وہ اسے ہضم نہ کر پائیں۔ برصغیر کی دو بڑی قومیں ہندو اور مسلم خود کو ایک ہی خطے سے تعلق رکھنے والی ایسی قومیں سمجھتی تھیں جنہیں جدید اور 'مہذب‘ معاشرے کا شہری بنانے کی تربیت ان کے برطانوی آقاؤں نے دی تھی۔ ان دونوں قوموں نے نوآبادیاتی طاقت کی زبان سے لے کر رہن سہن، طرز زندگی اور سب سے بڑھ کر سوچ کو اپنانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تمام تر سعی کی۔ نوآبادیاتی طاقت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے ہر طرح کی تدابیر کیں۔ ہندو اور مسلم ان دونوں قوموں کو اپنی بقا اور ترقی کا راز اسی میں پنہاں نظر آیا۔ یہاں تک کہ جب عالمی سیاسی بساط کا منظر نامہ بدلنا شروع ہوا تو برصغیر کی ان دونوں قوموں نے خود کو بنیادی طور پر باشعور قوم کی شکل میں منظم کرنے کی بجائے بھیڑ چال چلنا شروع کر دی۔
برصغیر کا بٹوارہ کن حالات اور کس شکل میں ہوا، یہ میری اس تحریر کا موضوع نہیں ہے اور کم و بیش تمام قارئین کو اُن حالات کا علم ہوگا جن میں برصغیر کی تقسیم کے ساتھ دو ریاستیں وجود میں آئیں۔ تاہم یہاں اتنا کہنا ضروری ہے کہ جب 1947ء میں برطانوی سامراج نے نام نہاد آزادی دینے کا اعلان کیا تو اس آزادی کو حاصل کرنے والی دونوں قوموں نے شاید یہ نہیں سوچا کہ کیا وہ اس ''آزادی‘‘ کو شعوری طور پر اپنانے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں؟
دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والے ان دونوں ممالک بھارت اور پاکستان کو آزاد ریاستوں کے طور پر اپنے مضبوط پیروں پر کھڑا کرنے، اس کے عوام کے سُنہرے خوابوں کو سچ ثابت کرنے اور انہیں دنیا میں باعزت، باوقار اور زیرک قومیں بنانے کی ذمہ داری کس نے اُٹھائی تھی؟ اس سوال کا جواب کون دے؟ بھارت کے پاس بنیادی سیاسی ڈھانچہ موجود تھا اور اسے اپنے سابق نوآبادیاتی حکمرانوں کا تعاون اور اعتماد بھی حاصل تھا اس لیے وہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرتا رہا۔ دوسری جانب ایک ایسا نومولود ملک جس میں سوائے ایک محدود مراعت یافتہ طبقے کے سب کچھ ہی نیا، غیر مستحکم اور نامکمل تھا، اُس نے اپنے قیام کے 76 سال کس طرح پورے کیے، یہ اور کوئی نہیں صرف اور صرف اس کے عوام جانتے ہیں۔
برطانوی غلامی سے نام نہاد آزادی حاصل کر کے دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان جاری سیاسی اور اقتصادی رسہ کشی میں گھسیٹے جانے والے ملک پاکستان کی بقا اپنے قیام میں آنے سے لے کر اب تک گوں نگوں خطرات میں گھری رہی۔ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے میں اس ملک میں صرف ایک طبقہ پروان چڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ اس طبقے کو طاقت کے نشے نے اتنا دھت کر دیا کہ یہ بھول گیا کہ اس کی اولین ذمہ داریاں اپنے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانا اور اس خطہ ارض کو تحفظ اور ترقی فراہم کرنا ہے۔
اس طبقے سے تعلق رکھنے والے چاہے وردی اور بوٹ پہنے ہوں، شلوار قمیض یا کوٹ پینٹ اور ٹائی میں ملبوس ہوں، انہیں اپنے اور اپنی سات پشتوں کے مفادات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ان دونوں کے علاوہ ایک اور طبقہ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک قوم کو بیوقوف بنانے اور ان کے جذبات اور عقائد کو بطور ہتھیار استعمال کر کے اپنی دکانداری چمکانے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتا ہے۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے خود کو خالق حقیقی سے نزدیک سمجھتے ہیں اور اپنے جیسے انسانوں سے بالاتر۔ اگر انہیں عقیدے کا ذرا بھی پاس ہوتا تو ملک میں فرقہ واریت اور انتہاپسندی کو ہوا دینے کی بجائے یہ ملک اور قوم کی خدمت کے لیے کچھ مثبت کام کرتے۔
پاکستان چھہتر برس کا ہو گیا۔ کئی نسلیں اس اثناء میں پروان چڑھیں۔ ہر نسل کا نوجوان طبقہ ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ ملک کی ترقی اور خوشحالی کی خواہش میں در بدر ہوتا رہا۔ کبھی کسی سیاسی لیڈر، کبھی کسی مذہبی رہنما اور یہاں تک کہ وردی والے محافظوں تک کے ساتھ اپنی دل کی اتھا گہرائیوں سے خلوص اور اعتماد نچھاور کرتے ہوئے ان کے پیچھے بھاگتا رہا۔
پاکستان کے عوام کو سات دہائیوں سے زیادہ کے اس عرصے میں کیا ملا؟ نا انصافی، بھوک، بدامنی، سیاسی انتشار، تعلیم اور روزگار سے محرومی، یہاں تک کہ احتجاج کرنے، مُنہ کھولنے، اپنا بنیادی حق مانگنے پر زدوکوب کیے جانے، گھروں سے اٹھائے جانے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینک دیے جانے اور کچھ عرصے میں اس دنیا سے کوچ کر جانے کے علاوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انہیں کچھ نہیں ملا۔
لاٹھی ڈنڈے کی سرکار تو دنیا کے بہت سے ملکوں میں ظلم و زیادتی کر رہی ہے لیکن پاکستان کے موجودہ دور میں ظلم و جبر اور غیر انسانی سلوک کی ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ کچھ عرصے سے ملک کے نوجوان طبقے کو امید کی کرن نظرآ رہی تھی، کسی بہتری کی، مستقبل میں تھوڑی سی روشنی کی، دنیا میں باعزت قوم کی طرح سراُٹھا کر چلنے کے قابل بننے کی، پاک سر زمین پر اپنے خوابوں کو پورا ہوتے دیکھنے کی، آزاد فضا میں سانس لینے کی ۔۔۔ وغیرہ لیکن بس یہ سب کچھ ادھورا خواب ہی رہا اور یہاں تو ''چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے
چلے۔‘‘
پاکستان کے آئین، پاکستانی عدلیہ اور نام نہاد جمہوریت کے پرخچے اڑا دیے گئے ہیں۔ شخصی سیاست، وڈیرہ شاہی، بدعنوانی اور طاقت کے ناجائز استعمال کرنے والوں کی ناعاقبت اندیشی اس ملک اور قوم کو جس پستی اور بربادی کی طرف لے جا رہی ہے وہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ اس وقت پاکستانی معاشرے میں گھٹن کی جو فضا پائی جاتی ہے اس میں نہ جانے کتنے بے گناہوں کی مزید جانیں جائیں گی اور کتنی ماؤں کی گودیں اجڑیں گی، کتنے بچے مزید یتیم ہوں گے، کتنی خواتین بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی۔ ارباب اختیار کو گویا اسی کا انتظار تھا۔
موسم آیا تو نخل دار میں میر
سر منصور ہی کا بار آیا
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔