یوکرائن تنازعہ یورپ کو متاثر کر سکتا ہے، جرمن چانسلر
17 نومبر 2014جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج بروز پیر سڈنی کے ایک تھنک ٹینک میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرائن کا تنازعہ تمام یورپی ممالک کے لیے باعث تشویش ہے کیونکہ یہ یورپ کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ لووَی انسٹی ٹیوٹ میں ایک اجتماع سے مخاطب ہوتے ہوئے میرکل نے واضح کیا کہ اس تناظر میں بالخصوص جارجیا اور مالدوا کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
میرکل نے اس تنازعے کی شدت بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یوکرائن کے تنازعے نے یورپ میں سلامتی کے حوالے سے چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ میرکل کے بقول دیوار برلن کے انہدام کے پچیس برس اور منقسم یورپ کے ایک مرتبہ پھر اتحاد کے بعد یوکرائن کی بحران زدہ صورتحال تمام یورپ کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ اس خاتون رہنما نے مزید کہا کہ اس تنازعے کے حل کے لیے روس کو بھی فوری کوششیں کرنا ہوں گی۔
دوسری طرف برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے غور کر رہے ہیں۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیدیریکا موگیرینی نے پیر کو کہا کہ روس کے لیے ابھی بھی دروازے کھلے ہیں کہ وہ یوکرائن تنازعے کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں یورپی رہنما ماسکو حکومت پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے حوالے بات چیت ضرور کریں گے۔
فیدیریکا کے بقول یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی اس ملاقات میں اس امر پر بھی گفتگو کی جائے گی کہ یوکرائن کے معاملے پر روس کے ساتھ مذاکرات کے لیے کیا حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے۔ یورپی سفارتی ذرائع کے مطابق اس تازہ ملاقات میں انہی روسی شخصیات پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جائے گا، جو پہلے ہی پابندیوں کی زد میں ہیں۔
دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک جرمن نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرائن میں قیام امن ممکن ہے لیکن اس مقصد کے لیے فریقین ستمبر میں طے پانے والے امن معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ تو باغی اور نہ ہی یوکرائنی دستے ان اہم علاقوں سے نکلنے کے تیار ہیں، جہاں منسک معاہدے کے تحت بفر زون بنانے کا کہا گیا ہے۔
ماسکو حکومت ایسے الزامات کو بھی مسترد کرتی ہے کہ وہ یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں فعال روس نواز باغیوں کو مسلح کر کے اس علاقے کو عدم استحکام کا شکار بنا رہی ہے۔ یاد رہے کہ مشرقی یوکرائن میں مارچ میں شروع ہونے والے اس تنازعے کے نتیجے میں ساڑھے تین ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔