یوکرائن نے ریزرو فورسز کو طلب کر لیا
2 مارچ 2014یوکرائن کی سکیورٹی کونسل کے سربراہ آندری پیروبی کا کہنا ہے کہ ریزرو فورسز بلانے کا مقصد یوکرائن کی سکیورٹی اور علاقائی سالمیت کا تحفظ ہے۔
یوکرائن کی سکیورٹی کونسل نے اس فیصلے کے تحت تمام مسلح افراد کو ہائی الرٹ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ریزرو فورس کو بلانے کا مطلب یہ ہوا ہے کہ 40 برس کی عمر تک کے تمام مردوں کو ممکنہ لڑائی کے لیے طلب کر لیا جائے۔ روئٹرز کے مطابق اگرچہ ایسی صورتِ حال میں یوکرائن کو ایسے تمام افراد کے لیے بندوقوں کے حصول میں بھی مشکل ہو سکتی ہے۔
قبل ازیں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا کہ ماسکو حکومت کو حملہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان کے اس بیان سے روس اور یورپ کے درمیان زمانہ سرد جنگ کے بعد کی سب سے بڑی محاذ آرائی پیدا ہو گئی ہے۔
یوکرائن کے وزیر اعظم آرسینی یاٹسینی یُک نے پوٹن کے اس بیان کے ردِ عمل میں کہا کہ یہ دھمکی نہیں ہے بلکہ ان کے ملک کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔
انہوں نے کہا: ’’اگر صدر پوٹن ایک ایسے صدر بننا چاہتے ہیں جو دو دوست اور ہمسایہ ملکوں یوکرائن اور روس کے درمیان جنگ شروع کرے، تو وہ اپنے اس ہدف کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ ہم ایک تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔‘‘
پوٹن نے یوکرائن میں موجود روسی شہریوں کے تحفظ کی کارروائیوں کے لیے ہفتے کو اپنے پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی تھی۔ اس کے ردِ عمل میں مغربی ملکوں نے ماسکو حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت نہ کرے۔
اسی تناظر میں برطانیہ اور فرانس نے روس کے شہر سوچی میں جون میں ہونے والے جی ایٹ کے ایک خصوصی اجلاس کی تیاری کے مرحلے میں شرکت نہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ رواں برس جی ایٹ کی قیادت روس کے پاس ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے کہا ہے کہ یوکرائن میں روس کی مداخلت اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے یورپ کی امن و سلامتی خطرے میں ہے۔
راسموسن نے یہ بیان اتوار کو نیٹو کے سیاسی دھڑے کے اجلاس سے قبل جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ روس کو اپنی عسکری سرگرمیاں روکنا ہوں گی اور دھمکیوں کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔
جرمنی کے وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا کہ یوکرائن کی یہ صورتِ حال یورپ کی نئی تقسیم کا باعث بن سکتی ہے جس سے بچا جا سکتا ہے۔
اُدھر روس کی بارڈر گارڈ سروس نے کہا ہے کہ رواں برس کے پہلے دو ماہ کے دوران یوکرائن کے تقریباﹰ پونے سات لاکھ شہری روس منتقل ہو چکے ہیں جس سے ایک بحران کی نشاندہی ہوتی ہے۔