یوکرین جنگ سے ہیروں کے بھارتی شہر کی چمک بھی ماند پڑ گئی
26 جنوری 202341 سالہ مہیش پٹیل تقریباً دو دہائیوں سے بھارتی ریاست گجرات کے سورت شہر میں مختلف کمپنیوں کے لیے ہیروں کو کاٹ کر پالش کرنے کا کام کرتے رہے ہیں۔ سورت شہر ہیروں کی پالش کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔
سابق قازق صدر کے بھتیجے سے تیئیس کروڑ ڈالر کے جواہرات برآمد
مہیش پٹیل اپنے برسوں کے تجربے اور اس فن میں مہارت کی وجہ سے ہیروں کے بازار میں کام کر کے اچھی آمدن پاتے تھے۔ لیکن روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے پٹیل اور ان جیسے ہزاروں افراد کے پاس یا تو کام ہی نہیں ہے یا ہے تو بہت تھوڑا کام مل رہا ہے۔
بھارت میں اجتماعی شادی، دلہنوں کو کئی ہزار ڈالر کے تحفے بھی دیے گئے
سورت شہر کی مقامی ہیروں کی صنعت اپنے زیادہ تر کھردرے پتھر یا ہیرے روس سے حاصل کرتی رہی ہے اور اب جیسے جیسے اس کی فراہمی کم ہوتی جا رہی ہے، یہاں پر قائم ہیروں کی فیکٹریوں کو ایک بڑھتے ہوئے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گلابی ہیرا سترہ ملین یورو میں نیلام
پٹیل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''ہیروں کی کم فراہمی کی وجہ سے بہت سے کارخانوں کے مالکان اپنے مزدوروں کو فارغ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ہمیں سخت نقصان پہنچا ہے اور کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہیروں کے چھوٹے یونٹ تو بند ہو چکے ہیں۔''
’کوہِ نور چوری نہیں ہوا، مرضی سے برطانیہ کو دیا گیا‘، بھارت
ہیرے کم ہیں، تو کام بھی زیادہ نہیں
حالیہ مہینوں میں ہیروں کے بازار سرد پڑ گئے ہیں۔ اس صنعت کے تخمینے کے مطابق، سورت میں تقریباً 6,000 ڈائمنڈ پالش کرنے والی یونٹس ہیں، جو پانچ لاکھ سے زیادہ کارکنان کو ملازمت فراہم کرتی ہیں۔ اور یہ صنعت سالانہ 22 سے 24 ارب ڈالر کے درمیان کا کاروبار کرتی ہے۔
لیکن سورت ڈائمنڈ ورکرز یونین کے ایک اندازے کے مطابق حالیہ بحران کی وجہ سے تقریباً 10,000 ہیروں کے ورکرز اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں۔
سورت میں ہیروں کے ایک تجربہ کار تاجر چندر بھائی سوتا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ''یہاں اب کافی تعداد میں ہیرے نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے کام بھی زیادہ نہیں ہے۔'' ایک اور تاجر پریش شاہ کہتے ہیں کہ اس وقت ہیروں کی ''صحیح قیمت بھی نہیں مل پا رہی ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''کوئی نہیں جانتا کہ یہ صورتحال کب تک ایسی رہے گی اور کیسے باہر نکلے گی۔ پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی یونٹس خسارے کا سامنا کرنے کے باوجود کسی نہ کسی طرح خود کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔''
روس میں ہیروں کی کان کنی کے لیے معروف کمپنی 'الروزا' دنیا بھر میں تقریباً 30 فیصد غیر تراشے ہوئے ہیروں کی سپلائی کرتی ہے۔ اس کمپنی میں جزوی طور پر روسی ریاست کی بھی ملکیت ہے۔ یہ بھارت میں ہیروں کی سپلائی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
بھارت دنیا کا اسی سے نوے فیصد تک خام ہیروں کو درآمد کرتا ہے اور پھر اسے تراش خراش کر کے پالش کرتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کو تقریبا 60 فیصد خام ہیرے الروزا سے ہی ملتے ہیں۔
یوکرین میں جنگ کی وجہ سے مغربی بلاک کی طرف سے عائد پابندیوں نے ہیروں کی سپلائی کو بھی متاثر کیا ہے اور بھارت کا سورت شہر اس سے کافی متاثر ہوا ہے۔ بھارت میں تیار ہونے والے ہیروں کی سب سے بڑی منڈی امریکہ ہے، تاہم کئی بڑی امریکی کمپنیاں اب روسی سامان خریدنے سے انکار کر رہی ہیں۔
بھارتی بینک سسٹم پابندیوں سے عاری نہیں ہے
جیم اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل (جی جے ای پی سی) کے چیئرمین ویپول شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی صنعت کو اس وقت ایک بڑے ''چیلنج'' کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا، ''پابندیوں سے ہیروں کی تجارت کے حجم میں 30 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے اور برآمدات کا حجم 35 فیصد کم ہو گیا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں سے یقینی طور پر سست روی ہے، تاہم ہمیں امید ہے کہ حالات بہتر بھی ہوں گے۔''
انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ پابندیوں کی وجہ سے روس کے مرکزی بینک اور دیگر دو بڑے بینکوں کو ادائیگی کے عالمی نظام سوئفٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت نے روس سے روپے میں تجارت کرنے کی کوششیں شروع کیں تاہم ابھی تک اس سمت میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
گرچہ بھارت روپے میں تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے، لیکن وہ ابھی تک اپنی ملکی کرنسی میں کوئی بڑا بین الاقوامی تجارتی سودا طے نہیں کر پایا ہے۔ شاہ کا کہنا تھا، ''تجارتی تصفیہ مشکل ہو گیا ہے، اور اس کی وجہ سے سپلائی میں خلل پڑا ہے۔ بہت سی کمپنیاں ووسٹرو اکاؤنٹس کا استعمال نہیں کر رہی ہیں۔''
لیب میں ہیروں کی تیاری کا منصوبہ
ہیروں کے تاجروں کو اب روس سے خام پتھروں کی سپلائی میں گراوٹ کی مشکلات کا اندازہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی تیار شدہ مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اس صنعت کے بعض اندرونی ذرائع نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ معیار کے پالش شدہ ہیروں کی قیمت کی شرح میں جنگ سے پہلے کے مقابلے میں بیس سے تیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
جویلری کے معروف صنعت کار اور کے جی کے گروپ کے وائس چیئرمین سنجے کوٹھاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ رکاوٹیں ضرور ہیں اور ''میں دیکھتا ہوں کہ چیزیں رواں برس کے دوسرے نصف حصے تک ہی مستحکم ہو پائیں گی۔ خام ہیروں کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے بعض کمپنیاں لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے ہیروں کی طرف راغب ہو رہی ہیں۔''
لیب میں تیار کیے گئے ہیرے بھی کان کنی والے ہیروں سے ہی ملتے جلتے ہیں، تاہم وہ اصل ہیرے نہیں ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان میں بھی وہی کیمیاوی، طبعی اور بصری خصوصیات ہیں جو کان کنی کیے گئے ہیروں میں ہوتی ہیں۔ اس میں بھی وہی چمک اور دمک دکھائی دیتی ہے۔
تاہم صنعت کاروں کا خیال ہے کہ اگر الروزا پر امریکی پابندیاں جاری رہیں تو شاید لیبارٹری سے تیار شدہ ہیرے فوری طور پر اصل ہیروں کا متبادل ثابت نہ ہوں۔
ص ز / ج ا (مرلی کرشنن)