یوکرین: روس نواز مظاہروں سے جرمنی میں غم و غصے کی لہر
11 اپریل 2022جرمنی میں 10 مارچ اتوار کے روز روس نواز مظاہرین نے مزید ریلیاں نکالیں۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے روس نواز ریلیوں کا یہ دوسرا موقع تھا۔ اس میں مظاہرین روسی زبان بولنے والی ملک کی بڑی آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اس میں حصہ لینے والے تقریباً 600 افراد نے ملک کے مالیاتی مرکز فرینکفرٹ میں مارچ کیا، جس میں بہت سے لوگ روسی پرچم لہرا رہے تھے۔ اسی سطح کا ایک مظاہرہ شمالی شہر ہنوور میں ہوا، جس میں پولیس کے مطابق، تقریباً 350 کاروں پر مشتمل ایک قافلہ شامل ہوا۔
تاہم کار کے اس قافلے کی روانگی میں تاخیر ہوئی کیونکہ حکام نے حکم دیا تھا کہ گاڑیوں کے بونٹوں کو پرچموں سے ڈھکا نہیں جا سکتا ہے۔
اس طرح کے مظاہروں کے منتظمین کا کہنا تھا کہ وہ جرمنی میں رہنے والے روسیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی عدم برداشت جیسے امور کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، بہت سے مبصرین ان پر یہ کہتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ مظاہرے کسی حد تک جنگ کی حمایت نہیں کرتے ہیں؟
ان کے مطابق اس طرح کے دونوں ریلیاں یوکرین کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے جواب میں ہونے والی ریلیوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔
جرمنی میں روسی نژاد لوگ
جرمنی تقریباً 12 لاکھ روسی نژاد لوگ اور سوا تین لاکھ کے قریب یوکرین سے تعلق رکھنے والے افراد کا گھر ہے۔ چوبیس فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے آغاز کے بعد سے، جرمن پولیس نے روسیوں کے خلاف 383 نفرت انگیز جرائم اور یوکرینیوں کے خلاف 181 جرائم درج کیے ہیں۔
ایک دن پہلے ہی روس نواز قافلے جرمنی کے متعدد شہروں سے گزرے۔ تقریباً 190 کاروں پر مشتمل ایک قافلہ جنوب مغربی شہر اسٹٹ گارٹ سے گزرا، جس کا نعرہ تھا، ''روسی بولنے والے لوگوں کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف۔''
اس کار ریلی کے شرکاء نے ایسے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر لکھا تھا ''روسی فوبیا بند کرو'' اور اس میں اسکولوں میں روسی بولنے والے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے پر زور زیادہ تھا۔
شہر کے حکام نے شرکاء کو پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ اس پروگرام کے دوران یوکرین تنازعے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ حکام نے زیڈ اور وی جیسے علامتی حروف کے استعمال کے لیے بھی متنبہ کیا تھا، جو روسی حملے اور اس کی حمایت کی ایک علامت بن چکے ہیں۔
مظاہروں کے خلاف سخت رد عمل
روس نواز مظاہروں سے جرمنی میں سخت ردعمل پیدا ہوا اور بہت سے لوگ اس طرح کی ریلی کو کریملن کی حمایت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے برلن میں بھی اسی طرح کا روس نواز کار کا ایک قافلہ ریلی کی شکل میں نکلا تھا، جس پر کئی حلقوں کی جانب سے شدید نکتہ چینی ہوئی تھی۔ ایک جرمن اخبار بِلڈ نے اسے ''شرم ناک پریڈ'' قرار دیا تھا۔
اس مظاہرے کو غیر سیاسی بتایا گیا، تاہم اس کا انعقاد اسی دن ہوا تھا جب یوکرین کے قصبے بوچہ میں مبینہ روسی مظالم کے انکشافات سامنے آئے تھے۔
جرمنی میں یوکرین کے سفیر آندریج میلنیک نے اس پر اپنے سخت رد عمل میں برلن کی میئر فرانزیسکا گیفی سے پوچھا، '' اس شرمناک قافلے کو برلن کے وسط میں جانے کی آخر آپ کس طرح اجازت دے سکتے ہیں؟''
گیفی نے اس کا جواب یوں دیا تھا کہ وہ ان کے غصے کو سمجھتی ہیں، تاہم محض روسی پرچم لہرانے پر لوگوں کو سزا نہیں دی جا سکتی ہے۔
جرمنی میں تقریباً بارہ لاکھ روسی اور سوا تین لاکھ یوکرینی نژاد باشندے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریبا سوا تین لاکھ ایسے ہیں جو تنازعہ کے آغاز کے بعد سے مہاجرین کے طور پر جرمنی پہنچے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)