یوکرینی جنگ: جرمنی کی حکمت عملی کیا ہے؟
26 جون 2022گرچہ برلن حکومت نے مغربی طاقتوں کی طرف سے روس پر لگائی گئی پابندیوں میں شمولیت اختیار کی اور کییف حکومت کو کچھ ہتھیار بھی فراہم کیے لیکن اس کا رد عمل دیگر اتحادیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خاموش دکھائی دیا۔
جرمن چانسلر اولاف شوُلس نے حال ہی میں ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے یوکرین پر روسی حملے کو ''وحشیانہ جارحیت‘‘ قرار دیتے ہوئے اس عمل کو سامراجیت کا نام دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اب یہ معاملہ یہ ظاہر کرنے کا ہے کہ '' طاقت کے ذریعے سرحدوں کو منتقل کرنے کی دوبارہ کبھی کامیاب کوشش نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ جرمن حکومت کے مطابق سب سے زیادہ ضرورت روس کے خلاف سخت تر پابندیوں، روسی تیل اور گیس کی سپلائی کو جلد از جلد کم کرنےاور یوکرین کے لیے فوجی اور مالی امداد جاری رکھنے کی ہے۔ برلن حکومت نے تاہم واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ کوئی تنہا اقدام نہیں اُٹھائے گی نا ہی اس جنگ کا اصل فریق بننے کا خطرہ مول لے گی۔
یوکرین جنگ کے تناظر میں اندرون اور بیرون ملک جرمن چانسلر شوُلس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کچھ ہچکچاہٹ سے کام لیتے ہیں۔ جہاں تک یوکرین کو بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کا تعلق ہے، ان کی اپنی حکومت کی اندرونی آوازیں، خاص طور سے جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک اور وزیر اقصادیات رابرٹ ہابیک کی طرف سے مزید فیصلہ کن کارروائیوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
یوکرین کو بھاری اسلحے کی فراہمی، جرمن عوام منقسم
جرمن چانسلر کی ہچکچاہٹ کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جرمنی کی فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی کی لیڈر اور پارلیمان میں دفاعی کمیٹی کی چیئرمین ماری اگنس اسٹراک سمرمن نے اپریل میں ٹیلی وژن چینل ZDF کو ایک انٹرویو میں کہا تھا،'' ہمیں ہنوز چانسلری کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘‘ ایک جرمن ماہر برائے خارجہ پالیسی امور یوہانس فاروک جو لائبزگ پونیورسٹی ہالے سے منسلک ہیں کا کہنا ہے،'' جرمن حکومت کی حکمت عملی دراصل اپنے پارٹنرز کی قیادت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی حکمت عملی دراصل اپنا کوئی راستہ یا سمت عوامی سطح پر واضح نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر ہچکچاہٹ سے کام لیتے ہوئے ان اقدام پر عمل کرتی ہے جو اتحادی طاقتیں پہلے کر چُکی ہوتی ہیں۔ جیسے کہ پابندیاں اور ہتھیاروں کی فراہمی۔
جرمنی آخر چاہتا کیا ہے؟
برلن متعینہ یوکرینی سفیر آندری میلنک جرمن چانسلر کے سب سے بیباک نقادوں میں سے ایک ہیں۔ وہ کئی ہفتوں سے اولاف شُولس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس حد تک کہ جتنی اس سے قبل کسی سفارتکار نے کبھی کسی جرمن سربراہ کی تنقید نہیں کی۔ گزشتہ جمعے کو بلڈ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا،'' عسکری معاملات میں برلن یوکرین کو محض جھنجھلاہٹ میں تنہا چھوڑ رہا ہے۔‘‘
کچھ روز قبل یوکرینی سفیر آندری میلنک نے ایک جرمن میڈیا گروپ نیٹ ورک کیساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ انہیں شبہ ہے کہ ''جرمن چانسلر شُولس در حقیقت یوکرین کو بھاری ہتھیاروں کی فراہمی سے پہلو تہی کر رہے ہیں اور جب تک فائر بندی نہیں ہو جاتی وہ اس فراہمی کو روکے رکھیں گے۔ اس کے بعد جرمنی پر دباؤ بھی ختم ہو جائے گا اور اُسے جرائتمندانہ فیصلے نہیں کرنا پڑیں گے۔‘‘
جرمنی یوکرین کو بھاری ہتھیار کیوں مہیا نہیں کر رہا؟
یہاں تک کہ گزشتہ ہفتے کے روز ولادیمیر پوٹن، اولاف شولس اور ایمانوئل ماکروں کے درمیان سہ طرفہ ٹیلی فون کال، جس میں جرمن اور فرانسیسی رہنماؤں نے نئے امن مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا، کو دنیا کے کچھ دارالحکومتوں میں شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
مذاکرات کی گنجائش بہت کم
ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے اولاف شوُلس نے روس اور روسی صدر پوٹن سے اپیل کی کہ وہ اپنے اور اپنے ملک کے مفاد کا سوچیں۔ ان کا کہنا تھا،'' روس کے لیے جنگ خاتمے تک کسی صورت اچھے نتائج کا سبب نہیں بنے گی۔ روسی معیشت پابندیوں کے نتیجے میں کئی دہائیوں پیچھے چلی جائے گی۔‘‘ جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے وہ پوٹن سے جنگ بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اُدھر دھچکے اور ناکامیوں کے باوجود روس مشرقی اور جنوبی یوکرین میں اپنی جارحیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دوسری جانب یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اب روس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ختم کرتے ہوئے یوکرین کے تمام مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ دے،بشمول 2014ء میں روس کے الحاق میں شامل کریمیا کے۔ روس تاہم ان مطالبات کو مکمل طور پر مسترد کر چکا ہے۔
جیسے جیسے حالات بدستور چل رہے ہیں امن مذاکرات کا موقع صفر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جرمنی زیلنسکی کو اپنی طرف سے کوئی مشورہ دینے کے لیے تٰیارنہیں۔
برلن میں ایک حکومتی ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ یوکرین کا تنہا فیصلہ ہے کہ وہ کن حالات میں امن قائم کرنا چاہتا ہے۔
کرسٹوف ہازلباخ/ ک م/ ع ح